EN हिंदी
رازؔ الٰہ آبادی شیاری | شیح شیری

رازؔ الٰہ آبادی شیر

4 شیر

آشیاں جل گیا گلستاں لٹ گیا ہم قفس سے نکل کر کدھر جائیں گے
اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے

رازؔ الٰہ آبادی




اشک غم لے کے آخر کدھر جائیں ہم آنسوؤں کی یہاں کوئی قیمت نہیں
آپ ہی اپنا دامن بڑھا دیجیے ورنہ موتی زمیں پر بکھر جائیں گے

رازؔ الٰہ آبادی




عمر جوں جوں بڑھتی ہے دل جوان ہوتا ہے
رازؔ یہ حسیں غزلیں ان سفید بالوں میں

رازؔ الٰہ آبادی




یہ میری تمنا ہے پیاسوں کے میں کام آؤں
یا رب مری مٹی کو پیمانہ بنا دینا

رازؔ الٰہ آبادی