EN हिंदी
ناطقؔ لکھنوی شیاری | شیح شیری

ناطقؔ لکھنوی شیر

12 شیر

آزادیوں کا حق نہ ادا ہم سے ہو سکا
انجام یہ ہوا کہ گرفتار ہو گئے

ناطقؔ لکھنوی




اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
میں نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح

ناطقؔ لکھنوی




دل ہے کس کا جس میں ارماں آپ کا رہتا نہیں
فرق اتنا ہے کہ سب کہتے ہیں میں کہتا نہیں

ناطقؔ لکھنوی




دل رہے یا نہ رہے زخم بھرے یا نہ بھرے
چارہ سازوں کی خوشامد مجھے منظور نہیں

ناطقؔ لکھنوی




دو عالم سے گزر کے بھی دل عاشق ہے آوارہ
ابھی تک یہ مسافر اپنی منزل پر نہیں آیا

ناطقؔ لکھنوی




ابتدا سے آج تک ناطقؔ کی یہ ہے سرگزشت
پہلے چپ تھا پھر ہوا دیوانہ اب بے ہوش ہے

ناطقؔ لکھنوی




اک داغ دل نے مجھ کو دیئے بے شمار داغ
پیدا ہوئے ہزار چراغ اس چراغ سے

ناطقؔ لکھنوی




کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

the river's raging is advised by the tranquil sea
the greater power you possess, the quieter you be

ناطقؔ لکھنوی




میکشو مے کی کمی بیشی پہ ناحق جوش ہے
یہ تو ساقی جانتا ہے کس کو کتنا ہوش ہے

ye who drink, needlessly, argue about the quantity
the maiden knows as she pours, each person's sobriety

ناطقؔ لکھنوی