EN हिंदी
ناصر زیدی شیاری | شیح شیری

ناصر زیدی شیر

6 شیر

دیکھا اسے تو آنکھ سے آنسو نکل پڑے
دریا اگرچہ خشک تھا پانی تہوں میں تھا

ناصر زیدی




ہاں یہ خطا ہوئی تھی کہ ہم اٹھ کے چل دیے
تم نے بھی تو پلٹ کے پکارا نہیں ہمیں

ناصر زیدی




کوئی سناٹا سا سناٹا ہے
کاش طوفان اٹھا دے کوئی

ناصر زیدی




میں بے ہنر تھا مگر صحبت ہنر میں رہا
شعور بخشا ہمہ رنگ محفلوں نے مجھے

ناصر زیدی




وہ بھی کیا دن تھے کہ جب عشق کیا کرتے تھے
ہم جسے چاہتے تھے چوم لیا کرتے تھے

ناصر زیدی




وہ یوں ملا ہے کہ جیسے کبھی ملا ہی نہ تھا
ہماری ذات پہ جس کی عنایتیں تھیں بہت

ناصر زیدی