باندھا تھا خود ہی آپ نے پیغام التفات
کیا بات تھی جو آپ ہی خود بد گماں ہوئے
محمد ایوب ذوقی
دنیا کے اس عبرت خانے میں حالات بدلتے رہتے ہیں
جو لوگ تھے کل مشہور جہاں ہیں آج وہی گمنامی میں
محمد ایوب ذوقی
خدا جانے یہ سوز ضبط ہے یا زخم ناکامی
کبھی ہوتی نہ تھی سینے میں لیکن یہ جلن پہلے
محمد ایوب ذوقی
راستے میں مل گئے تو پوچھ لیتے ہیں مزاج
اس سے بڑھ کر اور کیا ان کی عنایت چاہئے
محمد ایوب ذوقی
رکھتے ہیں جو اللہ کی قدرت پہ بھروسہ
دنیا میں کسی کی وہ خوشامد نہیں کرتے
محمد ایوب ذوقی
سوچا تھا ان سے بات نبھائیں گے عمر بھر
یہ آرزو بھی تشنۂ تکمیل رہ گئی
محمد ایوب ذوقی
ترک تعلقات کا کچھ ان کو غم نہیں
ہم تو شکست عہد وفا سے ملول ہیں
محمد ایوب ذوقی
ان کی نگاہ لطف کی تاثیر کیا کہوں
ذرے کو آفتاب بنا کر چلے گئے
محمد ایوب ذوقی
انہیں خدا کا عمل شرمسار کر دے گا
بچھا رہے ہیں جو کانٹے کسی کی راہوں میں
محمد ایوب ذوقی