EN हिंदी
اصغر مہدی ہوش شیاری | شیح شیری

اصغر مہدی ہوش شیر

18 شیر

آدمی پہلے بھی ننگا تھا مگر جسم تلک
آج تو روح کو بھی ہم نے برہنہ پایا

اصغر مہدی ہوش




آنے والے دور میں جو پائے گا پیغمبری
میرا چہرہ میرا دل میری زباں لے جائے گا

اصغر مہدی ہوش




بچے کھلی فضا میں کہاں تک نکل گئے
ہم لوگ اب بھی قید اسی بام و در میں ہیں

اصغر مہدی ہوش




دیوار ان کے گھر کی مری دھوپ لے گئی
یہ بات بھولنے میں زمانہ لگا مجھے

اصغر مہدی ہوش




ڈوبنے والے کو ساحل سے صدائیں مت دو
وہ تو ڈوبے گا مگر ڈوبنا مشکل ہوگا

اصغر مہدی ہوش




گر بھی جاتی نہیں کم بخت کہ فرصت ہو جائے
کوندتی رہتی ہے بجلی مرے خرمن کے قریب

اصغر مہدی ہوش




ہم بھی کرتے رہیں تقاضا روز
تم بھی کہتے رہو کہ آج نہیں

اصغر مہدی ہوش




جانے کس کس کا گلا کٹتا پس پردۂ عشق
کھل گئے میری شہادت میں ستم گر کتنے

اصغر مہدی ہوش




جو حادثہ کہ میرے لیے دردناک تھا
وہ دوسروں سے سن کے فسانہ لگا مجھے

اصغر مہدی ہوش