EN हिंदी
عابد ملک شیاری | شیح شیری

عابد ملک شیر

10 شیر

ابھی سے اس میں شباہت مری جھلکنے لگی
ابھی تو دشت میں دو چار دن گزارے ہیں

عابد ملک




بڑے سکون سے افسردگی میں رہتا ہوں
میں اپنے سامنے والی گلی میں رہتا ہوں

عابد ملک




فلک سے کیسے مرا غم دکھائی دے گا تجھے
کبھی زمین پہ آ اور زمیں سے دیکھ مجھے

عابد ملک




ہزار طعنے سنے گا خجل نہیں ہوگا
یہ وہ ہجوم ہے جو مشتعل نہیں ہوگا

عابد ملک




میاں یہ عشق تو سب ٹوٹ کر ہی کرتے ہیں
کسی سے ہجر اگر والہانہ ہو جائے

عابد ملک




نکال لائے ہیں سب لوگ اس کے عکس میں نقص
یہ آئینہ ابھی تیار ہونے والا ہے

عابد ملک




پوچھتا پھرتا ہوں میں اپنا پتہ جنگل سے
آخری بار درختوں نے مجھے دیکھا تھا

عابد ملک




سب مجھے ڈھونڈنے نکلے ہیں بجھا کر آنکھیں
بات نکلی ہے کہ میں خواب میں پایا گیا ہوں

عابد ملک




یہ محبت کوئی انجان سی شے ہوتی تھی
کیا یہ کم ہے کہ اسے تیری بدولت سمجھے

عابد ملک