زندگی ہو گئی ہے بے ترتیب
اب ٹھکانے پہ کوئی چیز نہیں
کچھ یہاں تھا
مگر یہاں کب ہے
کچھ وہاں ہے
مگر وہاں کب ہے
اب سر جلوہ گاہ کوئی نہیں
جو بھی ہے رونما گماں ہی تو ہے
''ہونا'' ہونے کا اک نشاں ہی تو ہے
شام میں گھل گیا ہے خواب کا رنگ
دل میں کوئی دیا جلے نہ جلے
خواب اپنے کمال کو پہنچا
کسی تعبیر میں ڈھلے نہ ڈھلے
اور کوئی ہے اس خیال میں گم
لوٹ کر گھر چلے چلے نہ چلے
جس کے اکلوتے سرد کمرے میں
زرد ملبوس میں ہے تنہائی
راستوں کو نگل گئے سائے
درد نے چاٹ لی ہے بینائی
اب کہاں ہے خیال رعنائی
زندگی ہو گئی ہے بے ترتیب
اب ٹھکانہ نہیں رہا کوئی
جس جگہ ہم تھکن اتار سکیں
نظم
زندگی سے مکالمہ
فہیم شناس کاظمی