وہی فضا وہی چہرے خموش نرسنگ ہوم
میں سو رہا تھا کہ کھڑکی کے پاس پیپل سے
نسائی نقرئی آواز ہولے ہولے اٹھی
بڑی اداؤں سے میرے قریب آنے لگی
سحر قریب تھی سورج نکلنے والا تھا
میں چاہتا تھا کہ اس صوت نقرئی کو چھوؤں
مگر وہ لوٹ گئی پائلوں کے سرگم میں
دمک رہا تھا سر آسماں حسیں سورج
گھنیرے پتوں میں چھپ کر کوئی یہ کہتا تھا
میں وہ خیال حقیقت فروز ہوں جس کو
ابھی سلامؔ بھی منظوم کر نہیں پائے
نظم
زندگی
سلام ؔمچھلی شہری