EN हिंदी
زندگی | شیح شیری
zindagi

نظم

زندگی

محمد انور خالد

;

اور طوفان کے بعد
اکھڑے گرے پیڑوں بھیگے تنوں

صبح کی مرگھلی دھوپ میں سوکھتے سبز پتوں کی بو میں
میں تنہا چلا جا رہا ہوں

میرے چاروں طرف
ٹنکی اونچی چھتیں ہیں پتنگوں کی مانند بکھری ہوئی

اور لکڑی کی شہتیریں جیسے پتنگوں کے ٹوٹے ہوئے ہاتھ
اور بجلی کی تاریں کہ جیسے پتنگوں کی الجھی ہوئی ڈور

ہوا نم ہے
اور شہر کے چوک پر گدھ اتر آئے ہیں

اور اکھڑی جڑوں کے کناروں کی گیلی زمیں پر
پھٹے بھیگے کپڑوں میں بچے

گھروندے بناتے ہیں بلور کی گولیاں کھیلتے ہیں