EN हिंदी
زندگی | شیح شیری
zindagi

نظم

زندگی

جاں نثاراختر

;

تمتمائے ہوئے عارض پہ یہ اشکوں کی قطار
مجھ سے اس درجہ خفا آپ سے اتنی بیزار

میں نے کب تیری محبت سے کیا ہے انکار
مجھ کو اک لمحہ کبھی چین بھی آیا تجھ بن

عشق ہی ایک حقیقت تو نہیں ہے لیکن
زندگی صرف محبت تو نہیں ہے انجم

سوچ دنیا سے الگ بھاگ کے جائیں گے کہاں
اپنی جنت بھی بسائیں تو بسائیں گے کہاں

امن اس عالم افکار میں پائیں گے کہاں
پھر زمانے سے نگاہوں کا چرانا کیسا

عشق کی ضد میں فرائض کو بھلانا کیسا
زندگی صرف محبت تو نہیں ہے انجم

تیر افلاس سے کتنوں کے کلیجے ہیں فگار
کتنے سینوں میں ہے گھٹتی ہوئی آہوں کا غبار

کتنے چہرے نظر آتے ہیں تبسم کا مزار
اک نظر بھول کے اس سمت بھی دیکھا ہوتا

کچھ محبت کے سوا اور بھی سوچا ہوتا
زندگی صرف محبت تو نہیں ہے انجم

رنج غربت کے سوا جبر کے پہلو بھی تو ہیں
جو ٹپکتے نہیں آنکھوں سے وہ آنسو بھی تو ہیں

زخم کھائے ہوئے مزدور کے بازو بھی تو ہیں
خاک اور خون میں غلطاں ہیں نظارے کتنے

قلب انساں میں دہکتے ہیں شرارے کتنے
زندگی صرف محبت تو نہیں ہے انجم

عرصۂ دہر پہ سرمایہ و محنت کی یہ جنگ
امن و تہذیب کے رخسار سے اڑتا ہوا رنگ

یہ حکومت یہ غلامی یہ بغاوت کی امنگ
قلب آدم کے یہ رستے ہوئے کہنہ ناسور

اپنے احساس سے ہے فطرت انساں مجبور
زندگی صرف محبت تو نہیں ہے انجم

آپ کو بند غلامی سے چھڑانا ہے ہمیں
خود محبت کو بھی آزاد بنانا ہے ہمیں

اک نئی طرز پہ دنیا کو سجانا ہے ہمیں
تو بھی آ وقت کے سینے میں شرارا بن جا

تو بھی اب عرش بغاوت کا ستارا بن جا
زندگی صرف محبت تو نہیں ہے انجم