ہم اپنی برہنگی چھپاتے پھرتے ہیں
ایسی حالت میں تعارف کا فلسفہ
دیوانگی میں بڑبڑانا ہوتا ہے
بکھری چیزوں کے انبار میں
کس کس کا رتبہ یاد رکھتے
ہم نے مرضی کی ترتیب بنا لی
خوشبو کا اہتمام کہاں سے کرتے
بدبو ہمیں زیادہ پر تپاکی سے ملی
ہم اپنے ہی جسموں کو چھو کر خوش ہو جانے والے
سڑاند دیتی چیزوں سے صفائی مانگ رہے ہیں
ہمارے گھروں کی چھتوں پر بے آواز بارش ہوتی ہے
ہم جھلستے کمروں میں
پانی کے خواب دیکھنے کے لیے
اپنے بستروں سے دور جا کے سوتے ہیں
ہماری آنکھوں کے شیشوں میں نیند نہیں
موت آ کے اپنا چہرہ دیکھتی ہے
ہم وہ اکھڑے راستے ہیں
جس کو گرد کے پہرے داروں نے ہموار نہیں ہونے دیا
ہماری طویل سرگزشت میں تکرار ہی تکرار ہے
ہمیں صرف ایک رخ والے صفحے پر تحریر کیا گیا
جو اپنے پہلے حصے سے آ ملتا ہے
نظم
زندگی اپنا فیصلہ خود لکھے گی
قاسم یعقوب