اے زندگی
تجھے یوں گزرتے دیکھا
کبھی گرتے
تو کبھی سنبھلتے دیکھا
جب دل چاہا
تجھے بھر لیں ان بانہوں میں
ہاتھ سے ریت سا
پھسلتے دیکھا
رکھا جو آئنہ
تیری نگاہوں پر
تجھ میں خود کو
سنورتے دیکھا
کھلی جو آنکھ
ٹوٹا وہ خواب
خود میں تجھ کو
بکھرتے دیکھا
کچھ جاگی کچھ سوئی
یوں خود میں ہی کھوئی
کبھی جلی کبھی بجھی
سات رنگوں سے سجی
وقت کی پلکوں پر
یوں نکھرتے دیکھا
نظم
زندگی
رشمی بھاردواج