شام کے پیچ و خم ستاروں سے 
زینہ زینہ اتر رہی ہے رات 
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے 
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات 
صحن زنداں کے بے وطن اشجار 
سرنگوں محو ہیں بنانے میں 
دامن آسماں پہ نقش و نگار 
شانۂ بام پر دمکتا ہے 
مہرباں چاندنی کا دست جمیل 
خاک میں گھل گئی ہے آب نجوم 
نور میں گھل گیا ہے عرش کا نیل 
سبز گوشوں میں نیلگوں سائے 
لہلہاتے ہیں جس طرح دل میں 
موج درد فراق یار آئے 
A Prison Nightfall 
دل سے پیہم خیال کہتا ہے 
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل 
ظلم کا زہر گھولنے والے 
کامراں ہو سکیں گے آج نہ کل 
جلوہ گاہ وصال کی شمعیں 
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا 
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں 
The night descends  
step by silent step 
down the stairway of stars. 
The breeze goes by me 
like a kindly whispered phrase. 
The homeless trees of the prison yard 
Are absorbed making patterns 
against the sky.
        نظم
زنداں کی ایک شام
فیض احمد فیض

