حصار تشکیک توڑ کر تم
اٹھو زمیں سے
فلک پہ پہنچو
پھر اس جہاں پر نگاہ ڈالو
خدا را اپنا مقام سمجھو
شعور مخصوص
جو ودیعت ہوا ہے تم کو
ذرا تم اس سے جو کام لے لو
تو شور شب خوں
جو ہر طرف ہے
یہ خود بہ خود ہی خموش ہوگا
یہ العطش کی صدا
جو ہر سمت اٹھ رہی ہے
تم اس پہ لبیک کہہ کر اپنی
فرات کا در خدا را کھولو!
خزاں کی محفل میں
رنگ و بو کے مذاکرے کی
سبیل تم ہو
تمہارے شانوں پہ
ذمہ داری ہے کتنی سمجھو!
کہ منحصر ہے
بقائے عالم
فقط تمہیں پر
نظم
ذمہ داری
ارشد کمال