EN हिंदी
زیست مزاجوں کا نوحہ | شیح شیری
zist-mizajon ka nauha

نظم

زیست مزاجوں کا نوحہ

الیاس بابر اعوان

;

ریشۂ اشک پہ ٹانکے ہوئے ہم برگ ملال
قریۂ وحشت و افتاد میں ہیں خیمہ بدوش

اپنے حصے کی جہانگیری اٹھا لائے ہیں
کیا خبر کون نظر طرفہ مسیحائی ہو

کون سا زہر ترے ہجر کا تریاق بنے
بس اسی کار فراغت پہ ہے مامور یہ دل

جس پہ کھلتے نہیں اسرار تعلق نہ مزاج
اپنی ہی دھن میں سبک خیز چلا جاتا ہے

ایک اندیشۂ ایجاز تلاطم کی طرف
جس کی تہذیب پہ تحریر ہیں نامے تیرے

ساحرہ دیکھ کبھی زیست مزاجوں کی طرف
دیکھ کیا رنگ ترے خاک نشینوں کا ہوا

پر تجھے فرصت نظارۂ خاشاک نہیں
تیری آنکھوں میں فروزاں ہے ستاروں کا وفور

ہم کہ بے نور چراغوں کے خراشیدہ بدن
اپنی ہی لو کی سخاوت سے جلے بیٹھے ہیں

ہم جہانگیر مزاجوں میں لٹے بیٹھے ہیں