جس نے جنم کی گھٹی چکھی
اس کو زینے طے کرنا ہیں
اندر باہر
نیچے اوپر
آگے پیچھے
زینے ہر ہر اور
جتنا جانو
چڑھ آئے
اتنا سمجھو
اتر چکے ہو
اس نے کہا
زینے عجب فریب ہیں بابا
آج تلک یہ کھل نہیں پائے
زینے یہ بل کھاتے زینے
جنم جنم کے پھیر
ازل گھڑی سے
انت سمے تک
زینے اپرم پار
اس نے کہا
زینہ زینہ چڑھتے جاؤ
چڑھتے جاؤ
بام پہ جب پہنچو گے
تو پاتال کی اک شب رنگی ناگن
پھن پھیلائے پاؤ گے
جس نے تم کو ڈسنا ہے
زینہ زینہ اترتے جاؤ
اور اترتے جاؤ
جب آنگن میں قدم رکھوگے
بام پہ خود کو پاؤ گے
اس نے کہا
نفی اثبات کے
اس ملغوبے میں
کیسا چڑھنا
کیسا اترنا
گولے کی اس کھینچ میں بابا
بام کہاں
پاتال کہاں ہے
کس کو خبر ہے
زینے تو بس زینے ہیں
ہم کو انہیں طے کرنا ہے
نظم
زینے تو بس زینے ہیں
انوار فطرت