کس بوجھ سے جسم ٹوٹتا ہے
اتنا تو کڑا سفر نہیں تھا
وہ چار قدم کا فاصلہ کیا
پھر راہ سے بے خبر نہیں تھا
لیکن یہ تھکن یہ لڑکھڑاہٹ
یہ حال تو عمر بھر نہیں تھا
آغاز سفر میں جب چلے تھے
کب ہم نے کوئی دیا جلایا
کب عہد وفا کی بات کی تھی
کب ہم نے کوئی فریب کھایا
وہ شام وہ چاندنی وہ خوشبو
منزل کا کسے خیال آیا
تو محو سخن تھی مجھ سے لیکن
میں سوچ کے جال بن رہا تھا
میرے لیے زندگی تڑپ تھی
تیرے لیے غم بھی قہقہہ تھا
اب تجھ سے بچھڑ کے سوچتا ہوں
کچھ تو نے کہا تھا! کیا کہا تھا
نظم
زیر لب
احمد فراز