زوال کے آسمانوں میں لڑکھڑاتے
اندھیرے خلاؤں کی دنیاؤں میں معلق ہوتے
اندھیرے شہروں کے برجوں کی گمنام فصیلوں پر گرتے
تشدد سے آباد انسانی بستیوں کے چہروں سے لپٹتے
اور انسانی وجود کی دھجیاں دیکھ کر چیختے روتے
کتنے ہزار سال بیت گئے ہیں
کتنے ہزار سالوں سے زوال کی چیخوں کو سنتے سنتے
ساعتیں تھک گئی ہیں
ساعتیں از بس تھک گئی ہیں
جلی ہوئی اشتہاؤں کی قوسیں
زائچوں کے حروف دیکھتے دیکھتے دم توڑ چکی ہیں
خواہشوں کے بے پایاں ہجوم
حسرتوں کی سرخ محرابوں کے نیچے
صدیوں کی دبیز گرد کے اندر دھنستے چلے گئے ہیں
خاکستری ایام کی متورم دھول میں
بے انت متلاہٹوں کے وار سہتے سہتے
سب کچھ مدفون ہو گیا ہے
مگر اب یہ زوال کی آخری چیخ ہے
ساحلوں پر پرندوں کے نئے قافلوں کا شور ہے
اور بادبانوں پہ سرخ رنگوں کی پھڑپھڑاہٹ
گم گشتہ شہروں کی بے آباد فصیلوں کے برجوں پر
ہم زوال کی آخری ساعتوں کی
آخری ہچکیاں سن رہے ہیں
نظم
زوال کی آخری ہچکیاں
تبسم کاشمیری