EN हिंदी
ظرف | شیح شیری
zarf

نظم

ظرف

نازش کاشمیری

;

نشۂ بادہ کا خمیازہ تن و جاں کا خمار
درد انگ انگ کا آنکھوں کی جلن دل کا عذاب

اے کہ تو بادۂ سرجوش کا متمنی ہے
تو نے سوچا ہے کبھی اپنی تمنا کا مآل

میں کہ اس کرب قیامت سے ہوں آگاہ مجھے
پیشکش جام کی کرتے ہوئے خوف آتا ہے

تیرے اعصاب پہ یہ بار مبادا ہو گراں اس درجہ
فرش ہستی پہ بکھر جائے تو ٹکڑے ہو کر

جام حاضر ہے کہ میں اور مرا مشرب خاص
بخل سے ایک بھی پہلو سے نہیں ہے منسوب

ہاں مگر جام اٹھانا ہے تو تو سوچ ضرور
ظرف‌ مے خوار سے قائم ہے وقار مے خوار