اک نئے دور کی ترتیب کے ساماں ہوں گے
دست جمہور میں شاہوں کے گریباں ہوں گے
برق خود اپنی تجلی کی محافظ ہوگی!
پھول خود اپنی لطافت کے گریباں ہوں گے
نغمہ و شعر کا سیلاب امڈ آئے گا
وقت کے سحر سے غنچے بھی غزل خواں ہوں گے
ناؤ منجدھار سے بے خوف و خطر کھیلے گی
ناخدا بربط طوفاں پہ رجز خواں ہوں گے
راہ رو اپنی مسافت کا صلہ مانگیں گے
رہنما اپنی سیاست پہ پشیماں ہوں گے
راست گفتار کہ ہیں ناقد اولاد فرنگ
وقت کہتا ہے کہ پھر داخل زنداں ہوں گے
''تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے
ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے''
نظم
ذرا صبر!
شورش کاشمیری