اک خواب کے فاصلے پہ لہو ہے
کہسار کے سرمئی کنارے
وادی سے شفق اچھالتے ہیں
جی میں یہ بھرا ہوا سنہرا
بھیتر میں رکا ہوا دسہرہ
کاغذ پہ نمو کرے گا کب تک
اے حرف ستارہ ساز اب تو
اٹھتی ہے قنات روشنی کی
ظلمت کا شعار ہے اکہرا
خفتہ ہے جہت جہت اجالا
امکاں ہے بسیط اور گہرا
نظم
زر ناب
اختر عثمان