روح ناپاک مری قلب بھی ناپاک مرا
نفس امارہ بہت ہو گیا بیباک مرا
بوجھ میں اپنے ہی ماضی کے دبا جاتا ہوں
اپنی ہی آگ میں اب خود ہی جلا جاتا ہوں
کس طرف جاؤں کہاں دھوؤں میں اپنا دامن
میرے مقتول مرے ساتھ ہیں بے غسل و کفن
دیکھتا ہوں شب تاریک میں جب میں تارے
نوک نیزہ پہ نظر آتے ہیں کتنے بچے
آج تک یاد ہیں مجھ کو وہ نگاہیں معصوم
ان ہی ہاتھوں نے جنہیں کر دیا بڑھ کر معدوم
چھاتیاں ماؤں کی ہنس ہنس کے ہیں میں نے کاٹیں
ہڈیوں سے مری تلوار نے سڑکیں پاٹیں
اپنی ہر ضرب کا اب خود ہی نشانہ ہوں میں
جرم عنوان ہو جس کا وہ فسانہ ہوں میں
میں نے عصمت کے صنم خانوں کو مسمار کیا
اپنی بہنوں کو سپرد سر بازار کیا
کتنے مہ پارے ہوئے خود مری ظلمت کا شکار
کون کر سکتا ہے اب میرے گناہوں کا شمار
چونک چونک اٹھتا ہوں راتوں کو میں اکثر اب بھی
چیخیں رہ رہ کے مرے کانوں میں آتی ہیں وہی
اپنے کردار کو اب کیسے بھلاؤں اے دوست
اپنی ہی لاش کو اب کیسے اٹھاؤں اے دوست
کھائے جاتا ہے مجھے اب مرے ماضی کا خیال
کیا مرے جرم کی پاداش ہے اس درجہ محال
نظم
ضمیر
وامق جونپوری