EN हिंदी
زمیں خواب خوشبو | شیح شیری
zamin KHwab KHushbu

نظم

زمیں خواب خوشبو

فہیم شناس کاظمی

;

منڈیروں سے جب دھوپ اتری
ابھی رات جاگی نہیں تھی

ابھی خواب کا چاند صحرا میں سویا ہوا تھا
سمندر کے بالوں میں چاندی چمکتی نہیں تھی

کسی طاق میں بھی دیئے کی کوئی لو بھڑکتی نہیں تھی
فضاؤں میں گیتوں کی مہکار تھی

پرندے ابھی آشیانوں کو بھولے نہیں تھے
وہ سپنوں میں کھوئی ہوئی تھی

زمانے پہ جب دھوپ اتری
تو اس نے بدن کو سمیٹا نہیں تھا

یہ مٹی کی زرخیزی جاگی نہیں تھی
سو جب رات اتری

زمیں خواب خوشبو
یہ موسم

یہ میں
میری آنکھیں

مرا دل
اسے رو رہے تھے

زمانے پر جب رات اتری