EN हिंदी
زخم تمنا | شیح شیری
zaKHm-e-tamanna

نظم

زخم تمنا

جنید حزیں لاری

;

ایک پھول کا چمن میں طلب گار میں ہوا
وہ پھول کھل رہا تھا سر شاخ آرزو

وہ پھول صد ہزار گلستاں میں انتخاب
وہ پھول دل کشی کی کہانی کا شوخ باب

دوشیزگی کا خواب بہاروں کی آب و تاب
ہر پنکھڑی نزاکت و نزہت لئے ہوئے

وہ گل تھا عطر‌ دان محبت لئے ہوئے
جذبات کی تپش سے مچلنے لگا تھا میں

گرمی آرزو سے پگھلنے لگا تھا میں
ریشم کا جسم رکھتے ہوئے خار بن گیا

وہ پھول میری جان کا آزار بن گیا
اک روز میرے ساتھ ہوا واقعہ عجب

بیتاب ہو کے دست طلب جب کیا دراز
حاصل جو سامنے تھا بہت دل خراش تھا

مانوس انگلیاں جو ہوئیں نوک خار سے
ایک ایک قطرہ

ان سے ٹپکنے لگا لہو
وہ ٹیس تھی کہ

مجھ کو
خدا یاد آ گیا