EN हिंदी
زباں جس کو ہر اک بولے اسی کا نام ہے اردو | شیح شیری
zaban jis ko har ek bole usi ka nam hai urdu

نظم

زباں جس کو ہر اک بولے اسی کا نام ہے اردو

ماجد الباقری

;

زباں جس کو ہر اک بولے اسی کا نام ہے اردو
زبان شعر میں فطرت کا اک انعام ہے اردو

سبھی اس کو سمجھتے ہیں سبھی میں عام ہے اردو
زباں کوئی بھی ہو ہر ایک کا انجام ہے اردو

گئے وہ دن کہ جب کچھ لوگ ہی اس کو سمجھتے تھے
زبانوں میں ابھر آئی ہے طشت از بام ہے اردو

کہیں ہے ابتدا اس کی کہیں ہے انتہا مظہر
کہیں آغاز ہے اردو کہیں انجام ہے اردو

یہ با اخلاق قوموں میں سرشتہ ہے اخوت کا
سلوک غیر سے بھی آج خوش انجام ہے اردو

مرقع ہے حسیں تحریک افسانی کے خاکوں کا
مکمل اجتماع گوہر ایام ہے اردو

عروس زندگی کی تاب و زینت جس زباں سے ہے
اسی خوش کام فطرت کا اچھوتا نام ہے اردو

دیار پاک یا ہندوستاں دونوں وطن اس کے
زباں ہر ایک جس میں قید ہے وہ دام ہے اردو

ذرا سی ٹھیس سے بھی شیشۂ دل ٹوٹ جاتا ہے
بہت نازک مگر از قسم استحکام ہے اردو

بہ ہر عنواں یہی اک پیشوائے حسن و خوبی ہے
غلط ہے ایشیا میں مورد الزام ہے اردو

ممالک غیر میں بھی آج اس کو سب سمجھتے ہیں
وطن والوں میں ایک تصویر صد اقوام ہے اردو

کسی فرقے کا لیڈر ہو وہ لیڈر بن نہیں سکتا
نہ سمجھے جب تلک جنتا میں کتنی عام ہے اردو

سفارت ہو سنیما ہو کہ ٹی وی ریڈیو سب میں
سروں کا نشہ ہے فکر و نظر کا جام ہے اردو

اسی کو بولنے میں روح کو اب ہے سکوں حاصل
زمانے کی زبانوں کے لئے پیغام ہے اردو

مسلسل ارتقائے آدمیت اس سے مظہر ہے
بہ قید نطق ماجدؔ رہبر اقوام ہے اردو