جہاں پہونچے ہندوستانی وہاں پہنچی زباں اردو
مرکب ہر زباں سے بن گئی شیریں زباں اردو
نکل کر ہند سے پہنچی یہ امریکہ اور ایفریقا
سمجھ لیتے ہیں ہر ملکوں کے باشندے زباں اردو
گئی یہ چین و جاپان اور گئی یورپ کے ملکوں میں
رہا جو چند دن ہند میں ہوئی اس کی زباں اردو
سمندر پار ہو کر یہ گئی صحرا نشینوں میں
ہماری ہے بہت آسان اور شیریں زباں اردو
نہ پوچھو اس کی وسعت کو کہاں سے ہے کہاں پہنچی
ترقی خود بخود یہ کرنے والی ہے زباں اردو
پلی ہے پیار و الفت میں یہ ہندو اور مسلماں کے
تو پھر کیوں خار ہو نظروں میں یہ پیاری زباں اردو
مٹانا چاہیے اس کو نہ نفرت اور غفلت سے
نشانی الفت و ملت کی ہے بے شک زباں اردو
نظم
زبان اردو
نثار کبریٰ