EN हिंदी
ذاکر‌ حسین | شیح شیری
zakir-husain

نظم

ذاکر‌ حسین

کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر

;

تیری فطرت میں ہے گوبندؔ کا آثار مگر
ابنؔ مریم کا مقلد ترا کردار مگر

رام اور کرشن کے جیون سے تجھے پیار مگر
بادۂ حب محمد سے بھی سرشار مگر

سکھ نہ عیسائی نہ ہندو نہ مسلمان ہے تو
تیرا ایمان یہ کہتا ہے کہ انسان ہے تو

ہندوؤں سے تجھے لینا ہے ذہانت کا کمال
اور سکھوں سے شجاعت کہ نہ ہو جس کی مثال

اہل اسلام سے لینا ہے عبادت کا جلال
اور عیسائیوں سے صبر لگن اور استقلال

ان عناصر کو محبت سے ملانا ہوگا
کشور ہند کا انسان بنانا ہوگا

من کے مندر کو منور کرے نور اسلام
کعبۂ دل میں رہے شام و سحر رام کا نام

کبھی گنگا کبھی کوثر سے ملیں جام پہ جام
یوں بنیں شیر و شکر تیری حکومت میں عوام

رام ہو اور رحیم اور نہ ہونے پائے
اب کوئی بچہ یتیم اور نہ ہونے پائے

تجھ سے امید یہ ہے کہ ملک میں افلاس نہ ہو
تنگ دستی نہ آئے کہیں یاس نہ ہو

الم و رنج کا دکھ درد کا احساس نہ ہو
اور تعصب کی کسی قوم میں بو باس نہ ہو

عنصر امن شکن کو تہ و بالا کر دے
تو جو آیا ہے تو دنیا میں اجالا کر دے