EN हिंदी
زاد سفر | شیح شیری
Zad-e-safar

نظم

زاد سفر

راشد آذر

;

یہ زندگی کا سفر عجب ہے
کہ اس میں جو بھی ملا

وہ مل کر بچھڑ گیا ہے
چلا تھا جب کارواں ہمارا

نئے افق کی طرف
تو ہم بھی

جواں امنگوں کے پاسباں تھے
قدم قدم پر

جب ایک اک کر کے
سب ہمارے رفیق چھوٹے

تو جن نئی منزلوں کی جانب
چلے تھے کل ہم

وہ سب افق کی طرح گریزاں
خلاء میں تحلیل ہو گئی تھیں

میں اس مسافت سے تھک گیا ہوں
مگر مجھے کوئی غم نہیں ہے

میں اپنے بعد آنے والی نسلوں کے حق میں
اب یہ دعا کروں گا

وہ منزلیں جن کے واسطے میں نے زندگی کا
عزیز سرمایہ تج دیا ہے

وہ منزلیں ان کی گرد پا ہوں
وہاں سے جب وہ

گزر کے آگے کی منزلوں کی طرف بڑھیں
میری ساری خوشیوں کو اپنا زاد سفر سمجھ کر

وہ ساتھ رکھ لیں