چلو یوں ہی سہی
تم سب دریچے بند کر دو
وہ ہوائیں روک دو
جو خلا سینے کا بھرنے کے لیے آتی ہیں
سانسیں تمہاری ساتھ لاتی ہیں
تو ''لو'' ایسے سمے
میری رگوں میں خون کے بدلے
وہ پانی ہے
جو ارماں سادھ لینے والے پیڑوں کا مقدر ہے
مرے طوفان کی موجیں
کسی برفیلے چوٹی کی وہ تحریریں ہیں جن کو
اب فقط ایسے فرشتے پڑھ سکیں گے
جو کبھی بد بخت دھرتی پر اترتے ہی نہیں
چلو یوں ہی سہی
تم جو بھی چاہو
جس طرح چاہو وہی ہوگا
میں اک گرداب کی مانند واپس لوٹتا ہوں
اس سمندر میں
کہ جس کی تہہ میں جا کر
سب خزانے ڈوب جاتے ہیں
نظم
یوں ہی سہی
قاضی سلیم