میں
روزانہ ایک سو روپے اجرت کا ملازم ہوں
میرا بیٹا
ٹائر پنکچر کی دوکان پر کام کرتا ہے
اور
استاد کی گالیوں اور تھپڑوں کے علاوہ
تیس روپے روز کماتا ہے
بیوی اور نوعمر بیٹی
تین چار بڑے گھروں میں صفائی اور برتن دھوتی ہیں!
مجھے یاد نہیں
کہ کبھی میرے کنبے نے مل کر ناشتہ کیا ہو
یا
رات کے کھانے کے بعد مل جل کر باتیں کی ہوں
میرے بچے اب
مجھ سے عیدی نہیں مانگتے
اور
بیوی بالیوں اور گجروں کا تقاضہ نہیں کرتی
ہم سب
خوراک پوری کرنے کے لیے مرتے ہیں
اور
یوٹیلیٹی بل دینے کے لیے زندہ رہتے ہیں
ہم ایک دوسرے سے
اجنبیوں کی طرح ملتے ہیں
اور
آبائی گھروں میں کرایہ داروں کی طرح رہتے ہیں

نظم
یوں بھی ہوتا ہے خاندان میں کیا
زاہد مسعود