EN हिंदी
یہ تمنا عبث | شیح شیری
ye tamanna abas

نظم

یہ تمنا عبث

شہزاد احمد

;

اسے دیکھنے کی تمنا عبث
وہ کیسا لگے گا

ابھی دھندلی دھندلی لکیروں نے چہرہ بنایا نہیں
ابھی اس کی آواز بھی ریشہ ریشہ ہے

اس نے گزرتی ہوئی ساعتوں کو بتایا نہیں
ابھی برف کی تہ کے نیچے ہیں آنکھوں کی جھیلیں

ابھی جھیل کی مچھلیاں زرد سورج کی کرنوں سے محروم ہیں
مگر کیا خبر

وہ ازل سے ابد تک اسی کیفیت میں رہے
یا مری آنکھ اس کی بدلتی ہوئی رنگتوں سے شناسا نہ ہو

میں اسے کیوں ادھورا کہوں
میری آنکھیں ہی شاید مکمل نہ ہو

یہی سوچتے سوچتے مجھ کو نیند آ گئی
اور ہوا دیر تک میرے کانوں میں کہتی رہی

دیکھ لے دیکھ لے
میں نے گھبرا کے آنکھیں اٹھائیں

وہاں تیرگی کے سوا اور کوئی نہ تھا
میں نے دل سے کہا

رات کافی پڑی ہے ابھی سور ہیں
سور ہیں

ابھی نیند کا پہلا جھونکا بھی آیا نہ تھا
پھر ہوا نے کہا دیکھ لے دیکھ لے

خامشی رنگ ہے
تیرگی کی صدا سنگ ہے

بنتے بنتے ہوئے روز و شب نقش پا سے زیادہ نہیں
اور تو سوچتا ہے کہ تکمیل ہو

چہرے اتنے شناسا ہوں تو ان کو پہچان لے
یہ تمنا عبث