یہ شہر نارسائی ہے
یہاں دستور گویائی نہیں ہے
یہاں لب کھولنا بھی جرم ہے
یہاں پر جب کبھی آؤ
خموشی کا ارادہ باندھ کر آؤ
یہاں گونگے گھروں کی
ساری دیواروں میں
آوازوں کے جنگل جاگتے ہیں
یہاں آنکھیں نہیں ہوتیں
یہاں دل بھی نہیں ہوتے
یہاں بس ایک ہی چہرہ ہے
باقی سارے چہرے اس کی نقلیں ہیں
سبھی چہروں کے نقشے ایک جیسے ہیں
وہی رستے وہی گلیاں
وہی صدیوں کا چکر ایک جیسا ہے
ازل سے دائرے کا اک سفر
اور پھر فنا کا مختصر لمحہ
یہی میری کہانی ہے
یہی سب کی کہانی ہے
یہ شہر نارسائی ہے
نظم
یہ شہر نارسائی ہے
بشریٰ اعجاز