ان درختوں کے گہرے گھنے، خواب آلود سائے میں
خاموش، حیران چلتا ہوا۔۔۔ ایک رستہ
کسی دور کی۔۔۔ روشنی کی طرف جا رہا ہے
یہاں سے جو دیکھو تو جیسے۔۔۔ کہیں حد امکاں تلک
گم شدہ وقت جیسی اندھیری گپھا ہے
یہاں سے جو دیکھو۔۔۔ تو
امید جیسا بہت حیرت افزا۔۔۔ عجب سلسلہ ہے
جو اس تنگ، تاریک نقطے سے
ممکن کے مانند، اک روشنی زاد قریے کی جانب کھلا ہے
فضا میں کہیں نیلگوں سبز، ہلکے سنہرے
کہیں بس ہرے ہی ہرے۔۔۔ سخت گہرے
بہت اونگھتے ڈولتے رنگ
سوکھے ہوئے سرخ پتوں کے مانند
اس بے اماں راستے پر پڑے ہیں
کرن بھولی بھٹکی کوئی
ان سے آ کر اچانک جو ملنے لگی ہے
تو یک بارگی چونک کر۔۔۔ سب دمکنے لگے ہیں
اندھیرے کی اس حد امکاں تلک
تنگ، گہری گپھا میں۔۔۔
سبھی یاد کے جگنوؤں کی طرح
اڑتے اڑتے چمکنے لگے ہیں
یہاں سے جو دیکھو۔۔۔ تو
نادیدہ منزل کی موہوم حیرت سے
آنکھیں، ہر اک خواب کی نیم وا ہیں
تمناؤں کے دل دھڑکنے لگے ہیں!

نظم
یہ رستہ
ثمینہ راجہ