ستارے چپ ہیں کہ چلتی ہے تیز تیز ہوا
یہ رات اپنی محبت کی رات بھی تو نہیں
فضا میں یادوں کے جگنو چمک رہے ہیں ابھی
حسین یادوں کو لیکن ثبات بھی تو نہیں
غم حیات سے مانوس ہو چلا ہے دل
نئے نئے ہی سہی سانحات بھی تو نہیں
بدل کے رکھ دیں جو لیل و نہار دنیا کے
ابھی حیات کے وہ حادثات بھی تو نہیں
وہی ہے خون تمنا وہی ہے حسرت غم
یہ موت بھی تو نہیں ہے حیات بھی تو نہیں
یہ رات جہد مسلسل کی ایک رات سہی
تباہیوں کو لیے بار بار گزرے گی
کوئی بتائے کہاں تک کہ زندگی کی یہ رات
فسردہ گزری ہے اور سوگوار گزرے گی
ابھی تو روز یہی فکر ہے جئیں کیسے
ابھی تو رات یونہی بے قرار گزرے گی
سکون دل کے لیے آج بھی یقیں سا ہے
یہی چمن سے خزاں شرمسار گزرے گی
نئے چراغ جلائیں امید فردا سے
کبھی تو وادئ غم سے بہار گزرے گی
یہ رات ایک نئی یادگار لائی ہے
سجا کے زخموں کے پھولوں کا ہار لائی ہے
نظم
یہ رات
باقر مہدی