EN हिंदी
یہ میرا خواب نہیں | شیح شیری
ye mera KHwab nahin

نظم

یہ میرا خواب نہیں

خورشید اکرم

;

اداسی کی جھلمل جھیل کے پار
میں نے دیکھا

تمہاری لال چوڑیاں سبز ہنسی ہنس رہی تھیں
اوس کی ایک قرمزی بوند

تمہاری پیشانی پر دمک رہی تھی
خوش خوابی کے ناخنوں سے تم

اندیشوں کی گرہیں کھول رہی تھیں
چاند کی نمی سے

امکان کے بے کنار پنے پر
کچھ لکھ رہی تھیں تمہاری انگلیاں

اور تمہارے پاؤں کے نیچے
دھرتی کی جھانجھن بج رہی تھی

اور یہ میرا وہم نہیں
کہ پرتھوی پر کہیں جب چاند

ایک بچے کے ساتھ دوڑ رہا تھا
تم ہوا سے اپنا ہاتھ چھڑا کر

ایک سجی ہوئی چوکھٹ میں داخل
ہو گئی تھیں

اور یہ میرا خواب نہیں
کہ سورج جب

آدھے آسمان میں چمک رہا تھا
اپنی چوڑیاں اپنی بندی

اپنے اندیشے اپنی انگلیاں
اپنے ہاتھ اور اپنے ہونٹ

سب اتار کر
تم نے

آنکھ سے آنکھ جلائی تھی
جلتی بتی بجھائی تھی