EN हिंदी
یہ خلف کا وعدہ ہے | شیح شیری
ye KHalaf ka wada hai

نظم

یہ خلف کا وعدہ ہے

جاوید ناصر

;

اختر الزماں ناصر
وقت جیسے رویا ہو

دھوپ نرم لہجے میں جیسے آج گویا ہو
دور کوئی مسجد میں

بیچ عصر و مغرب کے
جیسے کھویا کھویا ہو

اختر الزماں ناصر
میں تمہاری آنکھوں سے دیکھتا تھا دنیا کو

میں تمہارے ہاتھوں سے زندگی کو چھوتا تھا
میں تمہارے قدموں سے ناپتا تھا رستوں کو

میں تمہاری سانسوں سے سونگھتا تھا خوشبو کو
میں تمہارا منظر تھا

بے صدا سمندر تھا
سر پہ آسماں تم تھے

ہاں مرا بیاں تم تھے
اور میری دھرتی میں چاہتیں تمہاری تھیں

عادتیں تمہاری تھیں
دن تمہارے لہجے کی چھاؤں میں گزرتے تھے

زندگی سے لڑتے تھے زندگی سے ڈرتے تھے
اختر لزماں ناصر

جانے کیوں ہوا بدلی چرخ نے بھی رخ بدلا
دور مسجد جاں سے کیوں اذان دل ابھری

سجدۂ طلب چمکا
حرف کنج لب چمکا

دن غروب ہوتے ہی ذوق منتخب چمکا
کاش یہ نہیں ہوتا کاش میں وہیں ہوتا

اختر الزماں ناصر
میں کسی تمدن کا آخری مسافر ہوں

میں ہزار خوابوں کی دوڑ دھوپ میں شامل
میں ہزار جذبوں کی ریل پیل کا عادی

میں ہزار ہاتھوں سے زندگی بناتا ہوں
میں ہزار قدموں سے راستوں پہ چلتا ہوں

میں ہزار شانوں پہ کروٹیں بدلتا ہوں
میں ہزار آنکھوں سے منظروں میں ڈھلتا ہوں

میں اسیر دنیا کا
میں بصیر فردا کا

میں ورق ہوں ماضی کا
وقت ہے منادی کا

ڈرتے ڈرتے کہتا ہوں میں بھی ایک شاعر ہوں
اختر لزماں ناصر

یہ سفر جو جاری ہے کون اس کا جادہ ہے
کون اس کی منزل ہے

لوٹنا بھی مشکل ہے
میں تو جیسے بھر پایا اور ایک در پایا

روز و شب کا حلقہ ہے
میں بھی ایک قیدی ہوں

صبح کا اندھیرا ہوں
شام کی سفیدی ہوں

اختر لزماں ناصر
نوکری ہے سرکاری

بدترین سمجھوتہ، بدترین دشواری
آج میرے ہاتھوں میں تیر ہیں نہ پتھر ہیں

آج میری آنکھوں میں خواب ہیں نہ منظر ہیں
میں سگ ملامت کی سن رہا ہوں آوازیں

روز و شب کے نرغے سے بھاگنا بھی مشکل ہے
اور ایسے عالم میں

فرض عین واجب ہے
شغل مے بھی جائز ہے

اختر الزماں ناصر
حکم مجھ کو ازبر ہے

تین ننھی دھوپیں ہیں
وہ نفیس پیکر ہے

جن کے ساتھ جینا ہے
دھوپ ہے تو سہنی ہے

بس یہی گزارش ہے
ایک چھوٹی تبدیلی

صرف اتنی خواہش ہے
اختر الزماں ناصر

اعتدال لازم ہے
یہ خلف کا وعدہ ہے

دور ہے خدا لیکن
توشۂ سعادت ہے

روشنی کا جادہ ہے