EN हिंदी
یہ کون آیا | شیح شیری
ye kaun aaya

نظم

یہ کون آیا

ابن انشا

;

انشاؔ جی یہ کون آیا کس دیس کا باسی ہے
ہونٹوں پہ تبسم ہے آنکھوں میں اداسی ہے

خوابوں کے گلستاں کی خوشبوئے دل آرا ہے
یا صبح تمنا کے ماتھے کا ستارا ہے

ترسی ہوئی نظروں کو اب اور نہ ترسا رے
اے حسن کے سوداگر اے روپ کے بنجارے

رمنا دل انشاؔ کا اب تیرا ٹھکانا ہو
اب کوئی بھی صورت ہو اب کوئی بہانا ہو

خاکستر دل کو ہے پھر شعلہ بجاں ہونا
حیرت کا جہاں ہونا حسرت کا نشاں ہونا

اے شخص جو تو آکر یوں دل میں سمایا ہے
تو درد کہ درماں ہے تو دھوپ کہ سایا ہے؟

نیناں ترے جادو ہیں گیسو ترے خوشبو ہیں
باتیں کسی جنگل میں بھٹکا ہوا آہو ہیں

مقصود وفا سن لے کیا صاف ہے سادہ ہے
جینے کی تمنا ہے مرنے کا ارادہ ہے