EN हिंदी
یہ کیسی گھڑی ہے | شیح شیری
ye kaisi ghaDi hai

نظم

یہ کیسی گھڑی ہے

رفیق سندیلوی

;

یہ کند اور یخ بے نمو نیند جس میں
شب ارتقا اور صبح حریرا کا تازہ عمل رائیگاں ہو رہا ہے

شکستہ کناروں کے اندر مچلتی ہوئی سوختہ جان لہروں کا رقص زیاں ہو رہا ہے
چراغ تحرک کف سست پر بے نشاں ہو رہا ہے

مرے دہر کا طاق تہذیب جس پر
مقدس صحیفہ نہیں اک ریاکار مشعل دھری ہے

ہر اک شیشۂ پاک باز و صفا کی سماوی رگوں میں
کسی عکس فاجر کی مٹی بھری ہے

منزہ درختوں کے پاک اور شیریں پھلوں میں
کوئی نوک تیغ نجاست گڑی ہے

خدایا ترے نیک بندوں پر افتاد کیسی پڑی ہے
یہ کیسی گھڑی ہے