EN हिंदी
یہ عشق کہاں لے جائے گا | شیح شیری
ye ishq kahan le jaega

نظم

یہ عشق کہاں لے جائے گا

سندیپ کول نادم

;

تپتی راہوں سے چل چل کے
جب چھاؤں کی خواہش بھی نہ رہی

عاشقوں کی روانی روک تو لی
قطرہ قطرہ امید بہائی

یہ عشق کہاں لے جائے گا
بے خواب سویروں کی آواز

پر نور شبوں کو بھول گئے
انداز بیاں میں الجھ گئے

شیریں لبوں کو بھول گئے
یہ عشق کہاں لے جائے گا

صدیوں کی تھکن سے جیت کے بھی
اک پل کی نراشا سہہ نہ سکے

ساگر پینے کا دعویٰ ہے
دو اشک بہے بن رہ نہ سکے

یہ عشق کہاں لے جائے گا
لے گیا جہاں لے جانا تھا

کچھ خاص مزے کی جگہ نہیں
جس کی خاطر دل کو توڑیں

مر جائیں یہ وو وجہ نہیں
یہ عشق کہاں لے جائے گا

ہستی کے اور بھی مدعا ہیں
ہنسنے کے بہانے اور بھی ہیں

خواہش کے دریچے ہیں ہر سو
اور غم کے فسانے اور بھی ہیں

یہ عشق کہاں لے جائے گا