یہ اک دوہری اذیت ہے
اذیت بے سبب ہنسنے کی
بے آرام راتوں کی کہانی
شب زدوں کے سامنے
ہنس ہنس کے کہنے کی
خداوند خدا کی مہربانی ہے
دعائیں آپ کی ہیں
آپ کی سرکار میں زندہ ہوں خوش ہوں
بطور ناصحاں ملتا ہے کوئی
برنگ مہرباں ملتا ہے کوئی
بہ سعی رائے گاں ملتا ہے کوئی
وہ کم آگاہ کم احساس کم آواز لڑکی ہے
وہ لڑکی مجھ سے ملتی ہے
مگر اندر اتر جائے تو چبھتی ہے
وہ اپنی کم سوادی جانتی ہے اور سسکتی ہے
عجب صورت ہے وہ جب بھی کہیں جائے تو آ جائے
کہیں رستہ کنارے مجھ سے ٹکرائے تو آ جائے
کبھی بھی اپنی کج فہمی پہ رو جائے تو آ جائے
ہوائے شام کی آواز سن پائے تو آ جائے
ہوائے شام یہ کیسی محبت ہے
وہ لڑکی مجھ سے ملتی ہے
مگر اندر اتر جائے تو چبھتی ہے
وہ اپنی کم سوادی جانتی ہے اور سسکتی ہے
میں اپنی کم سوادی جانتا ہوں اور ہنستا ہوں
یہ اک دوہری اذیت ہے
نظم
یہ اک دوہری اذیت ہے
محمد انور خالد