EN हिंदी
یہ گھر جل کر گرے گا | شیح شیری
ye ghar jal kar girega

نظم

یہ گھر جل کر گرے گا

محمد انور خالد

;

یہ گھر جل کر گرے گا
تم نے لو دھیمی نہیں کی

ہجرتی گھر چھوڑنے کے بھی کوئی آداب ہوتے ہیں
چلو دو چار دن رہ لو

کسی کے آنے جانے تک
جہاں تک معصیت ہے ارتقا کا در کھلا ہے

یہ گھر جل کر گرے گا
ان پرندوں سے کہو دہلیز سے آگے نکل جائیں

خداۓ خشک و تر کی سلطنت اک گھر نہیں ہے
اور موسم ہیں حوادث کے

ابھی بارش بھی ہوگی
ابھی بارش بھی ہوگی

خیمہ دوزوں سے کہو اک بادباں سی لیں
کسی کی بازیابی تک یہ سارا شہر

جلنے کے لیے باقی رہے گا
تم دیے کی لو مگر آہستہ رکھنا

اور موسم ہیں حوادث کے
جہاں تک معصیت ہے ارتقا کا در کھلا ہے