یہی دن تو ازل سے میری قسمت تھا
مگر آنکھوں میں صحرا نے بھری وہ ریت
سب تاریک لگتا تھا
میں کتنے ہی سرابوں اور عذابوں سے تھی گزری
خشک ہونٹوں پر دعائیں بھی نہیں تھیں
ابھی تو آسماں دیکھا تھا میں نے
نشاں تک بھی نہیں تھا بادلوں کا
عجب دن ہے
سر صحرا ہے وہ جل تھل
کہ ہم یوں
بھیگتے چھینٹے اڑاتے
مسکراتے منظروں کے آئینے میں
دیکھتے ہیں عکس
جو آنکھوں میں کھلتے ہیں!
رگوں میں ساعتوں کی
ایک سرشاری سمائی ہے
یہی اک دن تو میری زندگی بھر کی کمائی ہے
اسی کی کوکھ سے ابھریں گے
صد ہا مسکراتے دن
بھلا بیٹھے وہ سال و سن
کہ جب اس زندگی کو ایک پل فرصت نہیں تھی
آ کے مل لیتی
یہ دیکھو! زندگی نے آج خود آ کے پکارا ہے
یقیں ہے
اب سے ہر لمحہ ہمارا ہے!
نظم
یہ دن
عارفہ شہزاد