EN हिंदी
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو | شیح شیری
ye daulat bhi le lo ye shohrat bhi le lo

نظم

یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو

سدرشن فاخر

;

یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے سے میری جوانی

مگر مجھ کو لوٹا دو وہ بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی

مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

محلے کی سب سے نشانی پرانی
وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانی

وہ نانی کی باتوں میں پریوں کا ڈھیرا
وہ چہرے کی جھریوں میں صدیوں کا پھیرا

بھلائے نہیں بھول سکتا ہے کوئی
وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی

وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
کھڑی دھوپ میں اپنے گھر سے نکلنا

وہ چڑیاں وہ بلبل وہ تتلی پکڑنا
وہ گڑیوں کی شادی پہ لڑنا جھگڑنا

وہ جھولوں سے گرنا وہ گرتے سنبھلنا
وہ پیتل کے چھاؤں کے پیارے سے تحفے

وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی نشانی
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

کبھی ریت کے اونچے ٹیلوں پہ جانا
گھروندے بنانا بنا کے مٹانا

وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی
وہ خوابوں کھلونوں کی جاگیر اپنی

نہ دنیا کا غم تھا نہ رشتوں کے بندھن
بڑی خوب صورت تھی وہ زندگانی

یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی

مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی