تم مجھے مقروض کر دیتے ہو
اپنے بوسوں سے
مرا بال بال بندھ گیا ہے
اس قرضے میں
روز بلا ناغہ
یہ بوسے جیسے اپنی یاد داشت
کھو دیتے ہیں
جب آہستہ آہستہ میں
اپنی انگلیاں پھیرتی ہوں
ان کے ثبت کیے ہوئے نشانوں پر
یہ میری پوروں پر
اپنی کوئی لمس نہیں چھوڑتے
ان کی گرم جوشی اور تپش
میرے چہرے پر سرسرانے کے بجائے
ہواؤں کی تندی سے جا ملتی ہے
اور
ان پتوں سے
جن کو پالا مار گیا ہو
نظم
یہ بوسے
عذرا عباس