EN हिंदी
یہ بغاوت ہے | شیح شیری
ye baghawat hai

نظم

یہ بغاوت ہے

تصدق حسین خالد

;

روندتے جاؤ گزر گاہوں کو
سر اٹھائے ہوئے

سینہ تانے
کانپ جائیں در و دیوار

قدم یوں اٹھیں
دھڑکنیں دل کی بنیں بانگ رحیل

یہ بغاوت ہے
بغاوت ہی سہی

ہم نے انجام وفا دیکھ لیا
خس و خاشاک بہاتا ہوا اپنا سیلاب

اب جو اٹھا ہے تو بڑھتا ہی چلا جائے گا
یہ زر و سیم کے تودوں سے نہیں رک سکتا

گولیاں
کس کو ڈراتے ہو

یہ ڈس سکتی ہیں
ڈس جانے دو

بے نوا سست قدم واماندہ
سال آتے تھے چلے جاتے تھے

وقت کے دامن خوش رنگ پہ کالے دھبے
خشک لب ہانپتے بے بس ایام

راہ کے بیچ میں الجھے ہوئے رہ جاتے تھے سستانے کو
گھبرائے ہوئے

اب تو ہر سانس دہکتا ہوا انگارہ ہے
دل کہ برفاب تھے اب آتش سیال کا فوارہ ہیں

برق رفتار ہے وقت
اور ہم وقف سے دو چار قدم آگے ہیں

چیخ اٹھیں قرنائیں
جھانجھ بجیں

دھوم ہو نقاروں کی
مسکراتے ہوئے گاتے ہوئے بڑھتے جاؤ

پھینکتے ہیں ہمیں تاروں پہ کمند
خیمہ زن ہونا ہے مریخ کے میدانوں میں