EN हिंदी
یہ اچھے لوگ ہیں | شیح شیری
ye achchhe log hain

نظم

یہ اچھے لوگ ہیں

محمد انور خالد

;

یہ اچھے لوگ ہیں ان سے نہ ملنا
اور ملنا بھی تو ان کی آستینیں دیکھ لینا

یہ اچھے لوگ ہیں اور بے شکن شائستگی ان کا مقدر ہے
یہ اچھے لوگ ہیں اور بے صدا شوریدگی ان کا مقدر ہے

لپکتے پانیوں کی آخری آسودگی ان کا مقدر ہے
یہ اچھے لوگ ہیں جب شام ہوتی ہے

تو بے آواز گلیوں کے سہارے
کنج گویائی میں اپنی آگ لینے جاتے ہیں

اور راستے بھر خود کو پیغمبر سمجھتے ہیں
یہ اچھے لوگ ہیں اور آگ ان کا مسئلہ ہے

یہ اچھے لوگ ہیں صدیوں سے ان کی مائیں کہتی آ رہی ہیں
پڑوسن آگ دینا

دھواں دیتے ہوئے چولھے کی صبحیں
آنگنوں میں پھیلتے سائے

کرنجی دھوپ بھوری آنکھ والی لڑکیوں جیسی
وفا نا آشنا شامیں

توے کو سینکتے ٹھٹھرے ہوئے ہاتھ
اور راتوں کی الجھتی سلوٹیں

جسموں کی آسودہ صلیبیں
اسپتالوں میں جنم دیتی ہوئی مرتی ہوئی مائیں

یہ شمشانوں کی بیوائیں
کئی صدیوں سے دہرائیں

پڑوسن آگ دینا
پڑوسن آگ خمیازہ

انہی رستوں کا آوازہ
انہی رستوں پہ چلنا اور یہی کہنا

یہ اچھے لوگ ہیں ان سے نہ ملنا
اور ملنا بھی تو ان کی آستینیں دیکھ لینا