EN हिंदी
یوم آزادی | شیح شیری
yaum-e-azadi

نظم

یوم آزادی

سراج لکھنوی

;

زمین ہند ہے اور آسمان آزادی
یقین بن گیا اب تو گمان آزادی

سنو بلند ہوئی پھر اذان آزادی
سر نیاز ہے اور آستان آزادی

پہاڑ کٹ گیا نور سحر سے رات ملی
خدا کا شکر غلامی سے تو نجات ملی

ہوائے عیش و طرب بادبان بن کے چلی
زمیں وطن کی نیا آسمان بن کے چلی

نسیم صبح پھر ارجنؔ کا بان بن کے چلی
بہار ہند ترنگا نشان بن کے چلی

سپاہی دیش کا اپنے ہر اک جوان بنا
بل ابروؤں کا کڑکتی ہوئی کمان بنا

نظر نواز ہے رنگ بہار آزادی
ہر ایک ذرہ ہے آئینہ دار آزادی

ہے سر زمین وطن جلوہ زار آزادی
سروں کے ساتھ ہے اب تو وقار آزادی

کہاں ہیں آج وہ شمع وطن کے پروانے
بنے ہیں آج حقیقت انہیں کے افسانے

حجاب اٹھ گئے اب کس کی پردہ داری ہے
غضب کی دیدۂ نرگس میں ہوشیاری ہے

کلی نے مانگ بڑے حسن سے سنواری ہے
حسین پھولوں میں رنگ خود اختیاری ہے

کھٹک کہاں سے ہو اب دل میں کوئی پھانس بھی ہے
خدا کا شکر کہ مرضی کی اب تو سانس بھی ہے

زمین اپنی فضا اپنی آسمان اپنا
حکومت اپنی علم اپنا اور نشان اپنا

ہیں پھول اپنے چمن اپنے باغبان اپنا
اطاعت اپنی سر اپنا ہے آستان اپنا

جمال کعبہ نہیں یا جمال دیر نہیں
سب اپنے ہی نظر آتے ہیں کوئی غیر نہیں