مہکتے ریشمی بستر پہ ٹوٹا کانچ بکھرا ہے
ملائم نرم تکیے میں بسی ہے کھردری خوشبو
نشیلی نیند کے ٹکڑے ہیں کوڑے دان کی زینت
لکھی ہیں قرمزی پردوں پہ نا مانوس تحریریں
سنہرے پھول دانوں میں سجی ہیں اجنبی آنکھیں
یہ سب کیسے ہوا اور کیوں ہوا
کس خواب سے پوچھوں
میں کیا سوچوں
مری سوچیں مرے اپنے لہو میں ڈوب جاتی ہیں
ہے کوئی زخم ایسا جو مسلسل خوں اگلتا ہے
لہو کی دھار گرتی ہے
خیال و خواب کے اوپر
نظم
یقین سے باہر بکھرا سچ
حمیدہ شاہین