EN हिंदी
یقین | شیح شیری
yaqin

نظم

یقین

فرید عشرتی

;

چاپ قدموں کی سنو رات کے تارے نہ گنو
کوئی آئے گا بہ ہر حال ضرور آئے گا

اپنی آنکھوں میں چھپائے ہوئے سپنے کل کے
لے کے تابندہ نگاہوں کا غرور آئے گا

یاس و حرماں کے اندھیروں میں ستارے بھر دو
دل کے خوابیدہ دریچوں سے کہو آنکھ ملیں

باد صرصر سے کہو جا کے چلے اور کہیں
خواب فردا کے در و بام پہ کچھ دیپ جلیں

لے کے آکاش پہ آتی ہے کسے کاہکشاں
چاند ہے یا کسی کمسن کے خد و خال کا نور

یا کھلی زلف کو بکھرائے ہوئے رات کے وقت
رقص فرما ہے کسی جنت شاداب کی حور

اوڑھ کر چادر سیماب کوئی زہرہ جمال
جگمگاتے ہوئے تاروں سے اترتی ہے ضرور

گا کے دھرتی کی نگاہوں میں خماریں نغمے
دے کے آواز دبے پاؤں گزرتی ہے ضرور

چاپ قدموں کی سنو رات کے تارے نہ گنو
کوئی آئے گا بہ ہر حال ضرور آئے گا