پاکیزہ ٹھہرائی جانے والی
دیواروں پر لکھا ہے
یہاں لکھنا منع ہے
وہیں لکھ دیتے ہیں لوگ
بے شرمی سے گالیاں
بے ہودہ نعرے
فرسودہ مذہبی احکامات
میں لکھ دوں وہاں
وہ لفظ
جو میرے اندر مر رہے ہیں
پر لکھ نہیں سکتا
دیواریں روکتی ہیں مجھے
روکتی ہیں
میرے اندر
دیواروں کو گرنے سے
ایک جنرل کہتا ہے
یا عوام کا نمائندہ کہتا ہے
چپ رہو
گڑگڑاتے ہوئے بولو
میں لکھ دوں
میری ماں کو میری محبوبہ ہونا چاہیئے تھا
اور میرے باپ کو
میری آنکھوں سے دور
لکھ دوں
سفاک سبب
اپنے دل میں دراڑ پڑنے کا
جو ایک دن آپ ہی آپ
کھنڈر میں بدل جائے گا
میں لکھ دوں
وہ سب
جو یہاں لکھنا منع ہے!
نظم
یہاں لکھنا منع ہے
احمد آزاد